اے خواب تیری تعبیر کا سفر ہے
زرا سمبھل کے مچل
بڑے نازک موڑ پر کاندھا دے رہی تھی زندگی
الوداع کہنے جب آئی تھی آخری گھڑی
رخصتی کا ہمیں سامان سمیٹنا ہے
چند آنسو کچھ درد اور بے بسی اپنی
آخری خواہش ہے زرا ٹھر جا تو اے خوشی
بڑی فرصت سے مل رہی تھی یہ زندگی اپنی
لڑ رہی تھی سانسیں ادھورا رہ نا جائے اس کا سفر
کتنی اذیت سے ڈر رہی تھی موت اپنی
کتنے شکوہ تھے جو کر رہے تھے گلہ
جاتے جاتے بھی ہمیں آنسو ہی تھے ملے
کچھ کہنا چاہ رہی تھی یہ دبی خاموشی

موت کی آغوش میں کروٹ بدل رہی تھی جب زندگی
اے Ø+قیقت تو اس خواب سے نا ڈر
جو آنکھ کھلتے ہی سمبھل جاتے ہے
پھر Ø+قیقت سے مل کرگھبراتے ہے
موت کی تمنا کرنے پھر آجاتے ہے
اے خواب تیری تعبیر کا یہ تھا ادھورا سفر
زرا سمبھل کر تو چل
کتنے پتھر ہے راستے میں پڑے
کتنے Ø+ادثے منزل پر پہچنے سے پہلے ہی ملے
چب رہی تھی تیری ہنسی زیست کے خانوں میں
اشتہار میں تھا لکھا نام تیرا دیوانوں میں
اے آنسو تو زرا سمبھل کے نکل
شامل نا ہوجائے تو کہیں بے گانوں میں

شاعرہ ریشم